تمام عمر نہ حائل کبھی غلاف کیا
تمام عمر ہی ننگے قدم طواف کیا
تمام عمر حقیقت پسند تھا پھر بھی
تمام عمر حقیقت کے برخلاف کیا
تمام عمر ملی روشنی اسی در سے
تمام عمر اسی در سے انحراف کیا
تمام عمر اندھیروں کی سلطنت میں رہے
تمام عمر شبِ تار میں شگاف کیا
تمام عمر ہی لہجہ رہا ہمارا خشک
تمام عمر سمندر میں اعتکاف کیا
مسعود حساس
No comments:
Post a Comment