Thursday 27 October 2022

اب میں ڈھونڈوں کسے شہر گم ہو گیا

 شہر گم ہو گیا 


اک چھناکا ہوا

دل کے خانے میں رکھا ہوا ایک نازک سا گلدان ٹوٹا

خموشی نے فوراً لگائی صدا

کیا گرا؟ کیا ہوا؟

چائے کی ٹھنڈی پیالی لیے، اونگھتے اونگھتے

اپنی بوجھل سی پلکیں اٹھاتے گراتے ہوئے 

بے دلی بول اٹھی

صبح سے رات تک

آج تو شہر کی کھوج میں ہی بھٹکتی رہی

کوئی اقلیم فن 

کوئی دست ہنر آفریں

کوئی خستہ مکاں 

کوئی دانش کدہ

کوئی در ماندہ و با خبر

میر کے عشق میں مبتلا 

پیرہن میں کتابوں کی خوشبو بسائے ہوئے 

آبلہ پا کوئی حرف کے دشت میں

کوئی بھی تو نہیں مل سکا 

اور ملے بھی تو کیا؟

چند اہل جنوں

اپنے گھر کے اندھیروں میں 

خود سے نگاہیں چراتے ہوئے

اور بالشتیے

جھوٹے لفظوں کی منڈی میں بولی لگاتے ہوئے

محفلوں پر یہ کیوں مردنی چھا گئی

درد کی جھیل پر کائی کیوں جم گئی

زندگی کیا ہوئی

کرب تخلیق کی دودھیا روشنی کیا ہوئی

کون برباد کر کے گیا میرا گہوارۂ علم و فن

وار کس نے کیا

بے کسی، بے بسی، بے حسی

بے ضمیری کے ملبے تلے

اب میں ڈھونڈوں کسے؟

شہر گم ہو گیا


رخسانہ صبا

No comments:

Post a Comment