ایسے لگتا ہے بد شکلی ہو گئی ہے
جگہ جگہ سے دنیا گدلی ہو گئی ہے
ہوتی تھی شفاف سیاست ہوتی تھی
اب تو کوجھی اور بے نسلی ہو گئی ہے
ہر شے الٹے پاؤں چلنے لگ گئی ہے
نقلی اصلی، اصلی، نقلی ہو گئی ہے
گرتا جاتا ہے یہ جسم کا گارا بھی
حالت بھی اب خاصی پتلی ہو گئی ہے
جنگل والی قوم سنورتی جاتی ہے
شہروں والی الٹی جنگلی ہو گئی ہے
میں بھی اس کے ہجر میں تڑپا ہوں وہ بھی
سوکھ، سوکھ کے آم کی گٹھلی ہو گئی ہے
وحید اسد
No comments:
Post a Comment