کچھ اور پوچھیے، یہ حقیقت نہ پوچھیے
کیوں مجھ کو آپ سے ہے محبت نہ پوچھیے
سجدوں سے طے مقامِ محبت نہ ہو سکا
کیا کیا ہوئی ہے سر کو ندامت نہ پوچھیے
کعبے میں، بت کدہ میں، حریمِ جمال میں
دل کی کہاں کہاں ہے ضرورت نہ پوچھیے
تھی راز ابتدائے محبت بس اک نِگہ
ایسی نگاہ جس کی حقیقت نہ پوچھیے
کہنے کو دل میں کچھ بھی نہیں جُز خیالِ یار
لیکن خیالِ یار کی وسعت نہ پوچھیے
دونوں ہی بھول جانے کے قابل ہیں عشق میں
افسانۂ مجاز و حقیقت نہ پوچھیے
تسکیں یہ جان و دل تھے ہمیں بھی کبھی عزیز
اب زندگی ہے کس کی بدولت نہ پوچھیے
تسکین قریشی
No comments:
Post a Comment