Tuesday, 25 October 2022

رکھتا یہ عشق ہے ہمیں سو غم سے بے نیاز

 رکھتا یہ عشق ہے ہمیں سو غم سے بے نیاز

دل میں کھلے جو پھول ہیں شبنم سے بے نیاز

کرتا ترس تو کیا کوئی اس حالِ زار پر

رہتی جو اپنی آنکھ بھی ہے نم سے بے نیاز

ہم لوگ ہیں اگرچہ بڑے خانماں خراب

ہو جائیں کیسے گیسوئے پُر خم سے بے نیاز

ہر چند جان جسم سے جاتی رہے ولے

ہو جائیں کیسے فرقتِ پیہم سے بے نیاز

یارو جفائے حسن میں دیکھی ہے وہ کشش

زخمِ جگر بھی ہے یہاں مرہم سے بے نیاز

بے کل فراقِ یار میں دل ہو چکا ہے راکھ

ہوتا گیا جو نارِ جہنم سے بے نیاز


عبدالرزاق بے کل

No comments:

Post a Comment