رکھتا یہ عشق ہے ہمیں سو غم سے بے نیاز
دل میں کھلے جو پھول ہیں شبنم سے بے نیاز
کرتا ترس تو کیا کوئی اس حالِ زار پر
رہتی جو اپنی آنکھ بھی ہے نم سے بے نیاز
ہم لوگ ہیں اگرچہ بڑے خانماں خراب
ہو جائیں کیسے گیسوئے پُر خم سے بے نیاز
ہر چند جان جسم سے جاتی رہے ولے
ہو جائیں کیسے فرقتِ پیہم سے بے نیاز
یارو جفائے حسن میں دیکھی ہے وہ کشش
زخمِ جگر بھی ہے یہاں مرہم سے بے نیاز
بے کل فراقِ یار میں دل ہو چکا ہے راکھ
ہوتا گیا جو نارِ جہنم سے بے نیاز
عبدالرزاق بے کل
No comments:
Post a Comment