عذاب راتوں، خزاں رُتوں کی کہانی لکھوں
میں تیری فُرقت کی ساعتوں کو زبانی لکھوں
بس ایک پاکیزہ ربط ہے روح و جاں کا تجھ سے
تو پھر میں اس سارے واقعے کو گمانی لکھوں
مجھے میسر ہیں سارے رشتے، وہی نہیں ہے
بھلا میں کس دل سے شوق کی رائیگانی لکھوں
دعا سنا ہے فلک پہ جا کے اٹک گئی ہے
سو تجھ کو پانے کی کیا یوں ہی خوشگمانی لکھوں
جو بہہ رہے ہیں مِری رگوں میں ہیں اشک میرے
بھلا میں کیسے لہو کی اپنے روانی لکھوں
کبھی جو دریا چڑھا تھا دل کا اتر چکا ہے
تو کیا میں جذبات کے تلاطم کو فانی لکھوں
یہ میرے جیون کے سارے موسم بتا رہے ہیں
میں اپنے آنگن کے ہر شجر کی جوانی لکھوں
نہیں گیا وہ کہیں بھی انجم! یہیں کہیں ہے
میں شوق کی سب اشارتوں کے معانی لکھوں
انجم عثمان
No comments:
Post a Comment