خواب برگد کے درخت ہیں
غیظ کی تند و تیز آندھی پتے ادھیڑتی ہے
بارش اور اولے ٹہنیوں میں چھید کرتے ہیں
اور میرے سینے میں کائی جمنے لگتی ہے
گھونسلے گرنے سے پرندے یتیم ہو جاتے ہیں
ہُدہُد کی آنکھوں میں سفید موتیا اتر آتا ہے
فاختہ کے پر آسمانی بجلی سے جھلس جاتے ہیں
لیکن لکڑہارے کی آنکھ نہیں کھلتی
لکڑہارے کی کلہاڑی اب پیڑ نہیں کاٹتی
میرے ٹکڑے اڑاتی ہے
خواب برگد کے درخت ہیں
اور ہماری خواہشیں
ساحل سے لگی خاموش کشتیاں
جن کے سارے بادبان دریدہ ہیں
ثمر علی
ثمر محمد علی
No comments:
Post a Comment