Saturday 29 October 2022

کہتا ہے ان کا شعلہ عارض حجاب میں

 کہتا ہے ان کا شعلہ عارض حجاب میں

ہم تو نہیں رہیں گے مقید نقاب میں

پھر ان کی یاد لیتی ہے سینے میں چٹکیاں

پھر درد سا اٹھا دلِ خانہ خراب میں

سب ختم کر دی اس نے محبت کی داستاں

قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

وہ ان کا خوابِ ناز میں شورش فزا سکوں

یہ میری خامشی کی روش اضطراب میں

ہے کشمکش ہی زیست کی وجہ قیامِ زیست

پنہاں سکوتِ قلب ہے پھر اضطراب میں

شکوہ بتوں سے جور کا ہے اے ثمر فضول

میں مبتلا ہوں اپنے ہی دل کے عذاب میں


ثمر دہلوی

No comments:

Post a Comment