کہتا ہے ان کا شعلہ عارض حجاب میں
ہم تو نہیں رہیں گے مقید نقاب میں
پھر ان کی یاد لیتی ہے سینے میں چٹکیاں
پھر درد سا اٹھا دلِ خانہ خراب میں
سب ختم کر دی اس نے محبت کی داستاں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
وہ ان کا خوابِ ناز میں شورش فزا سکوں
یہ میری خامشی کی روش اضطراب میں
ہے کشمکش ہی زیست کی وجہ قیامِ زیست
پنہاں سکوتِ قلب ہے پھر اضطراب میں
شکوہ بتوں سے جور کا ہے اے ثمر فضول
میں مبتلا ہوں اپنے ہی دل کے عذاب میں
ثمر دہلوی
No comments:
Post a Comment