عمر باقی راہِ جاناں میں بسر ہونے کو ہے
آج اپنی سخت جانی سنگِ در ہونے کو ہے
عالمِ پِیری میں ہے داغِ جوانی کا فروغ
یہ چراغِ شام خورشیدِ سحر ہونے کو ہے
آمدِ پِیری میں غفلت ہے جوانی کی وہی
نیند سے آنکھیں نہیں کُھلتیں سحر ہونے کو ہے
ہم کو رُسوا کر کے رُسوائی سے بچنا ہے محال
تُو بھی تشہیر اے نگاہِ فتنہ گر ہونے کو ہے
داغِ عِصیاں اک طرف اشکِ نِدامت اک طرف
نوح کے طوفان سے جنگِ شرر ہونے کو ہے
کون سی دُھن ہو گئی دیکھیں دلِ صد پاش کو
یہ شکستہ ساز کس نغمہ کا گھر ہونے کو ہے
خلوت و کثرت میں مجھ سے پوچھتی ہے بےکسی
اس طرف ہو جاؤں میں بھی تُو جدھر ہونے کو ہے
یوسفِ مضموں کو لائے فکرِ کُہنہ اے منیر
یہ زلیخا، نوجواں بارِ دِگر ہونے کو ہے
منیر شکوہ آبادی
No comments:
Post a Comment