لگا دیا مری وحشت نے سب ٹھکانے سے
ہوا تو ڈرتی ہے اب خاک تک اڑانے سے
مِری نظر سے ہوا، اک غلط شکار ہے وہ
یہ تیر چوک گیا تھا کبھی نشانے سے
یہ رقص اس کی بدولت ہے وحشتوں کا یہاں
وگرنہ، کون ہے واقف مِرے ٹھکانے سے
تلاشتا تھا بہانہ وہ قُرب کا میرے
جو چاہتا ہے بچھڑنا کسی بہانے سے
وہی ٹھہرتا ہے عنوان کاوشوں کا مِری
میں اس کو لاکھ بھی رکھوں الگ فسانے سے
نظر کے ہوتے ہوئے کچھ نظر نہیں آتا
یہ مسئلہ ہے کسی کے نظر نہ آ نے سے
وہ بے وفا بھی ہے حصہ اسی زمانے کا
گلہ کیا نہیں یہ سوچ کر زمانے سے
تہذیب ابرار
No comments:
Post a Comment