Thursday 27 October 2022

دل لگایا یہاں جس نے روتا رہا

 دل لگایا یہاں جس نے روتا رہا

پل ہی پل بھر میں کیا کچھ نہ ہوتا رہا

بے وفا تھا کنارے لب بحر کے

خود بھی ڈوبا مجھے بھی ڈبوتا رہا

اس کے ہاتھوں کی محنت کا تھا سبب

کاٹا اس نے وہی جو وہ بوتا رہا

وار خنجر نگاہوں سے کرتا رہا

زخم اپنے بدن کے میں دھوتا رہا

اپنی الفت جتانے مِری گور پر

آ کے اب کس لیے پھر وہ روتا رہا

فیصلہ وقت ہی پھر بتاتا ہے سب

اس نے پایا ہے کیا اور کھوتا رہا


ابرار نجمی

No comments:

Post a Comment