دل لگایا یہاں جس نے روتا رہا
پل ہی پل بھر میں کیا کچھ نہ ہوتا رہا
بے وفا تھا کنارے لب بحر کے
خود بھی ڈوبا مجھے بھی ڈبوتا رہا
اس کے ہاتھوں کی محنت کا تھا سبب
کاٹا اس نے وہی جو وہ بوتا رہا
وار خنجر نگاہوں سے کرتا رہا
زخم اپنے بدن کے میں دھوتا رہا
اپنی الفت جتانے مِری گور پر
آ کے اب کس لیے پھر وہ روتا رہا
فیصلہ وقت ہی پھر بتاتا ہے سب
اس نے پایا ہے کیا اور کھوتا رہا
ابرار نجمی
No comments:
Post a Comment