Tuesday, 25 October 2022

گلوں کا رنگ کلی کا شباب مانگے ہے

 گلوں کا رنگ کلی کا شباب مانگے ہے

نگاہِ شوق بھی کیا انتخاب مانگے ہے

جو تجھ سے مجھ سے خفا ہو گئے ہیں صدیوں سے

نگاہ پھر انہیں لمحوں کا خواب مانگے ہے

کسی کو کچھ بھی نہیں مل سکا زمانے میں

جسے ملا ہے وہ کیوں بے حساب مانگے ہے

اب اس سے بڑھ کے ترقی کا دور کیا ہو گا

حرم میں بیٹھ کے زاہد شراب مانگے ہے

اب ایسی ضد کا بھلا کیا علاج ہو گا ضیا

وہ ماہتاب ہے، اور آفتاب مانگے ہے


ضیا شادانی

No comments:

Post a Comment