Monday, 24 October 2022

مرے وکیل مرا کیس لڑنا بھول گئے

 وہ اس زمین کی جنت جمال کی تصویر

مِری ریاستِ آزاد جموں و کشمیر

وہ میلوں میل چوراسی ہزار کی جاگیر

اب ایسا خواب ہے جس کی نہیں کوئی تعبیر

میں پوچھتا ہوں کہاں میرے عرض و طول گئے

مِرے وکیل مِرا کیس لڑنا بھول گئے


اٹوٹ انگ کسی کا نہیں نہ شہ رگ ہوں

زبان کھینچ لی جائے اگر یہ بات کروں

زمانہ جان چکا جھوٹ ہیں یہ افسانے

مِری زمین پہ قابض ہیں لوگ بیگانے

ملال یہ ہے کہ اپنے بھی مجھ کو بھول گئے

مِرے وکیل مِرا کیس لڑنا بھول گئے


کہیں یہ نعرۂ الحاق کی عملداری

کہیں پہ ہند کہیں چین کی سپہ گردی

ہنوز رائے شماری ہوئی نہ استصواب

قراردادیں پڑی ہیں وہیں دھری کی دھری

اِدھر اُدھر کے شکاری اڑا کے دھول گئے

مِرے وکیل مِرا کیس لڑنا بھول گئے


یہ اقتدار کی موجیں یہ کرسیوں کے مزے

مجاورانِ سیاست تو مستعد نہ رہے

نفاق ڈالتی بیرونی طاقتوں کا اثر

وطن پرست بھی آپس میں متحد نہ رہے

جہاد و جہد کے سب مرحلے فضول گئے

مرے وکیل مرا کیس لڑنا بھول گئے


سنو اے عالمی امن و اماں کے رکھوالو

تمہارے منہ طمانچہ ہے یہ ستم جاگو

گلہ گزار ہیں مظلوم ، بے نوا، دلگیر

کب آؤ گے ارے یو این کے منصفو بولو

کہاں تمہارے وہ دعوے کہاں اصول گئے

مِرے وکیل مِرا کیس لڑنا بھول گئے


میں کس کو روؤں جب اپنے ہی لوگ زاغ نفس

گھروں میں بیٹھ کے فرمائیں تبصرے اور بس

یہ مصلحت کے جنے احتجاج سے عاری

سہولتوں کے پجاری یہ بندگانِ ہوس

ذرا سی ایڈ ملی اور خوشی سے پھول گئے

مِرے وکیل مِرا کیس لڑنا بھول گئے


جو سچ کا ساتھ نہ دے جان لو وہ ہم سے نہیں

خموش ظلم پہ رہنا بھی ظلم ہے صاحب

جہادِ منکر و معروف بھولنے والے

ہمارے ہاں تو ہے مظلوم کی مدد واجب

پڑھا کے دین کا سارا سبق رسول گئے

مِرے وکیل مِرا کیس لڑنا بھول گئے


یہ زر خرید غلاموں کی ٹولیاں کاشر

یہ بھات بھات کے نعرے یہ بولیاں کاشر

جو ساکنانِ وطن اپنے حق کی بات کریں

تو دونوں سمت سے چلتی ہیں گولیاں کاشر

جوان و پیر مرے سولیوں پہ جھول گئے

مِرے وکیل مِرا کیس لڑنا بھول گئے


شوزیب کاشر 

No comments:

Post a Comment