معجزوں کے منتظر
ہمارے ریوڑوں کو بھیڑیے چیر پھاڑتے رہے
ہمارے کمسنوں کو وحشیوں نے نوچنا شروع کیا
ہماری بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لٹی بھرے بازار میں
اور ہم
ہم ایک معجزے کے منتظر خلا کو گھورتے رہے
ہمیں محبتوں کے نام پر دیوانگی عطا ہوئی
ہم گھڑوں کی پختگی سے بے خبر پانیوں میں بہہ گئے
تھلوں میں جل گئے وجود
پھر بھی ہم
ہم کہ معجزوں کے منتظر خلا کو گھورتے رہے
ہماری ذات پگڑیوں پلوؤں میں پِس گئی
ہماری آہ نے ہمارا ہی کلیجہ کھا لیا
ہماری زندگی سے روشنی نے کوچ کر لیا
ہماری سسکیاں کسی کے کان تک نہ جا سکی
پھر بھی ہم
ہم ایک معجزے کے منتظر خلا کو گھورتے رہے
ہمارے کھیت ایک ایک بوند کو ترس گئے
ہماری عزتوں کی چادریں ڈیروں والے لے گئے
ہماری آنکھیں خون رنگ بہانے لگ پڑیں
اور ہم انتظار میں لگے رہے
ہم ایک معجزے کے منتظر خلا کو گھورتے رہے
اے معجزوں کے پیشوا
اے کل جہان کے خدا
تری رحمتیں بے انتہا
مجھے بتا مجھے بتا
کہاں ہے تیرا معجزہ
عاصم رشید
No comments:
Post a Comment