وہ ستم گر تو گیا، دل سے مگر کیوں نہ گیا
جیسے جاتے ہیں سبھی، حیف ہے وہ یوں نہ گیا
اپنا ظاہر تو بدل ڈالا ہے دیکھا دیکھی
ہے یہ افسوس، ستم کیش کا اندروں نہ گیا
کیا تماشا ہے کہ سوچے نہ تونگر کوئی
ایک حبہ بھی لیے ساتھ میں قاروں نہ گیا
چاہ مسند میں سدا اس نے ہے پالا بدلا
جو تھا دامن پہ لگا اس کے وہی خوں نہ گیا
ہے یہی عشقِ حقیقی کہ نہ دل سے جائے
بن کے مجنون، دلِ قیس کا افسوں نہ گیا
مجھ کو ہر چہرے پہ تیرا ہی گماں ہو پھر بھی
پوچھتے ہیں کہ اس شہر سےاب کیوں نہ گیا
خوشبو پھیلا کے محبت کی، ملا کیا ارشاد
کہتے ہیں؛ چاک گریبان یہ مجنوں نہ گیا
ڈاکٹر ارشاد خان
No comments:
Post a Comment