کیا ستم گر نے آج کام کیا
کام آخر مِرا تمام کیا
اللہ اللہ اون کا یہ غصہ
ترک نامہ کیا پیام کیا
ذکر بوسہ پہ ہو گئے ہو خفا
میں نے کیا کچھ برا کلام کیا
آج عشاق کی بن آئی ہے
اپنا دیدار اوس نے عام کیا
یادِ جاناں میں رات دن روئے
ہجر میں نالہ صبح و شام کیا
آئے سو بار میرے گھر کی طرف
نہ کبھی آپ نے مقام کیا
ہم بہار و خزاں میں مست رہے
شغلِ بادہ کشی مدام کیا
جان دے اے رشید فرقت میں
عشق میں تم نے خوب کام کیا
رشید حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment