سنانا چاہتے تھے ہم تو پھول کے قصے
کہاں سے آ گئے لب پر ببول کے قصے
وہ سوچتا تھا کہ رک جائیں گے قدم میرے
مگر تھے ذہن میں میرے اصول کے قصے
وہ ایک پیڑ جسے کر کے بے لباس ہوا
سنا رہی ہے کسے اپنی بھول کے قصے
اب اپنے آپ کو پہچاننا بھی مشکل ہے
ہر آئینے میں عبارت ہیں دھول کے قصے
اتر گیا ہے جہاں کا گلاب سا چہرہ
ہر ایک دل میں رقم ہیں ببول کے قصے
جنہیں سفر کی تھکاوٹ نے راستہ نہ دیا
وہی تو لکھتے ہیں اکبر فضول کے قصے
اکبر حبیبی
No comments:
Post a Comment