دل ہے بڑی خوشی سے اسے پائمال کر
لفظوں کو میں ردیف و قوافی میں ڈھال کر
اشعار کر سکی ہوں مِرا دل نکال کر
زخمِ جگر کا میرے ذرا اندمال کر
اے یارِ من! کبھی کوئی ایسا کمال کر
خوشیوں سے یوں بھری ہوئی یہ اپنی زندگی
میری طرح خدا نہ کرے تو بے حال کر
مجھ کو بھلانے کے لیے اے بے وفا مرے
ہر عکس میری یاد کا بے خد و خال کر
لو میں ہی جان بوجھ کے اب ہار مان لوں
دونوں طرف سے ایک سا، سکہ اچھال کر
تیری طرف نہ نظریں اٹھائیں گے وہ کبھی
چوکھٹ پہ ان کی جا کے تو چاہے دھمال کر
اپنے ہنر سے خیرہ تُو کر دے جہان کو
پوشیدہ رکھ کے خود کو نہ گدڑی کا لال کر
اب تو اجل سے دست و گریباں ہے زندگی
اب نہ مِری تباہی کا اتنا ملال کر
سونے سے بھی تو ہجر کا موسم نہ کٹ سکا
اب جاگ کر جبین نہ خود کو نڈھال کر
مہ جبین عثمان
No comments:
Post a Comment