Monday, 31 October 2022

جو چاہے آئے جائے خریدار کی طرح

 جو چاہے آئے جائے خریدار کی طرح

گھر ہو گیا ہے آپ کا بازار کی طرح

تا روزِ حشر آپ نہ سلجھا سکیں اسے

گیسو بڑھے جو میری شبِ تار کی طرح

سینے سے ہم لگائے رہے دل بہل گیا

تصویر یار پاس رہی یار کی طرح

اے قدر وصل میں جو سنائیں وہ تلخ بات

پی جائیے گا شربتِ دیدار کی طرح


قدر بلگرامی

No comments:

Post a Comment