جو چاہے آئے جائے خریدار کی طرح
گھر ہو گیا ہے آپ کا بازار کی طرح
تا روزِ حشر آپ نہ سلجھا سکیں اسے
گیسو بڑھے جو میری شبِ تار کی طرح
سینے سے ہم لگائے رہے دل بہل گیا
تصویر یار پاس رہی یار کی طرح
اے قدر وصل میں جو سنائیں وہ تلخ بات
پی جائیے گا شربتِ دیدار کی طرح
قدر بلگرامی
No comments:
Post a Comment