Friday, 28 October 2022

ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور

 ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور 

مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور 

اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر 

جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور 

منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا 

تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور 

اللہ گلہ کر کے میں پچھتایا ہوں کیا کیا 

جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور 

کیا زیر لب دوست ہے اظہار جسارت

حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور 

دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم 

دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور 

یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو 

سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور 


نجم آفندی

میرزا تجمل حسین

No comments:

Post a Comment