Monday 24 October 2022

آنکھوں سے پی کے بہکے ہوئے ہیں شدید مست

آنکھوں سے پی کے بہکے ہوئے ہیں شدید مست

کس کس کو ہونا ہے ابھی تھوڑا مزید مست

اے حافظ و اے رازی و رومی سنو ذرا

آؤ کہ مل کے کرتے ہیں گفت و شنید مست

منصور ہوں میں بات سے اور کام سے حسینؑ

سر مست میری بات ہے میں سر برید مست

اے یار دل کو چیر گئیں لن ترانیاں"

تو کب سنے گا نعرۂ حبل الورید مست

رندو سنو وہ فطرتِ رندانہ کیا ہوئی؟

ساقی نے کیوں پکارا ہے؛ ہل من مزید مست

مرشد نے لکھ کے بھیجا ہے خط میں سلامِ عشق

خط پڑھ کے آپ ہو گئی خط کی رسید مست

گردن کو چومیے مری گردن کو چومیے

 دیکھو سجا کے آیا ہوں داغِ کلید مست

تیری نگاہ پر ہے حجاب المنافقون

تجھ کو نظر تو آئے گا تھوڑا بعید مست

جوبن پہ ہے ظہورِ عبادت لبِ فرات

معبود و عبد و معبد و کُلْھُم عَبید مست

مرشد کے مے کدے سے ملا جام تو امیر 

سن سن کے شعر ہونے لگے ہیں فریدؒ مست


امیر سخن

No comments:

Post a Comment