چہک رہا تھا کوئی طائرِ دعا مجھ پر
وہ چپ ہوا تو کڑا وقت آ گیا مجھ پر
ہوئی ہے سنگِ گراں کے تلے نمو میری
تمام عمر مِرا بس نہیں چلا مجھ پر
جو آئے گا مِرے جی میں وہی کروں گا میں
کسی کا حق نہیں کوئی، مِرے سوا، مجھ پر
ضرور ہے کوئی پیغام پیڑ کا اس میں
یہ پھول شاخ سے یونہی نہیں گِرا مجھ پر
ہے کوئی اور جو رہتا ہے رات دن مجھ میں
لکھا ہے نام کسی اور شخص کا مجھ پر
کبھی نہ چھوڑتا میں بستر بدن اپنا
مگر وہ دستکیں دیتا چلا گیا مجھ پر
کسی کے کام تو آیا ہے انتظار مِرا
بنا لیا ہے اداسی نے گھونسلہ مجھ پر
یہ کس کی سانس مجھے گدگدا رہی ہے کبیر
ہے کون میرے سرہانے جھکا ہوا مجھ پر
کوئی لگائے نہ میرے بدن کو ہاتھ کبیر
ہوا ہے رنگ محبت نیا نیا مجھ پر
کبیر اطہر
No comments:
Post a Comment