Monday 24 October 2022

اڑانوں کا ہر اک موقع ستمگر چھین لیتا ہے

 اڑانوں کا ہر اک موقع ستم گر چھین لیتا ہے

وہ مجھ کو حوصلہ دے کے مِرے پر چھین لیتا ہے

مجھے خیرات میں دے کے وہ اپنے پیار کے لمحے

مِری نیندیں مِرے خوابوں کے منظر چھین لیتا ہے

کسی نے جاتے جاتے چھین لی ایسی مِری سانسیں

کہ جاری سال کو جیسے دسمبر چھین لیتا ہے

مزاجوں کو بدلنے کی ہے چاہت اس قدر اس کو

تھما کر ہاتھ میں غنچے وہ خنجر چھین لیتا ہے

وہ چاہے تو عطا کر دے نہ ہو جو کچھ مقدر میں

اگر دینا نہ چاہے تو وہ دے کر چھین لیتا ہے


غزالہ تبسم

No comments:

Post a Comment