اڑانوں کا ہر اک موقع ستم گر چھین لیتا ہے
وہ مجھ کو حوصلہ دے کے مِرے پر چھین لیتا ہے
مجھے خیرات میں دے کے وہ اپنے پیار کے لمحے
مِری نیندیں مِرے خوابوں کے منظر چھین لیتا ہے
کسی نے جاتے جاتے چھین لی ایسی مِری سانسیں
کہ جاری سال کو جیسے دسمبر چھین لیتا ہے
مزاجوں کو بدلنے کی ہے چاہت اس قدر اس کو
تھما کر ہاتھ میں غنچے وہ خنجر چھین لیتا ہے
وہ چاہے تو عطا کر دے نہ ہو جو کچھ مقدر میں
اگر دینا نہ چاہے تو وہ دے کر چھین لیتا ہے
غزالہ تبسم
No comments:
Post a Comment