وہ سنور سکتا ہے معقول بھی ہو سکتا ہے
❤میرا اندازہ، مِری بھول بھی ہو سکتا ہے
دور سے دیکھا ہے، نزدیک سے بھی دیکھوں گا
پھول سا لگتا ہے وہ، پھول بھی ہو سکتا ہے
آج کی شب جو ستاروں نے مرا ساتھ دیا
دل جو بے کار ہے، مشغول بھی ہو سکتا ہے
کیوں سمجھتا ہوں کہ آتا ہے وہ میری خاطر
سیر اس شخص کا معمول بھی ہو سکتا ہے
تخت تبدیل بھی ہو سکتا ہے تختے میں کبھی
اپنے عہدے سے وہ معزول بھی ہو سکتا ہے
☆ جانتا کون تھا خاور وہ درخشاں تارہ
گر کے آنکھوں سے کبھی دھول بھی ہو سکتا ہے
خاقان خاور
No comments:
Post a Comment