میں روز اخبار پڑھ کے اتنا دہل رہا ہوں
کہ اب تو اپنے ہی گھر سے کم کم نکل رہا ہوں
تُو میری باتوں پہ کان مت دھر کہ میں جنوں میں
نہ جانے کب سے دہن سے کیا کیا اُگل رہا ہوں
مجھے پتہ ہے تُو چھت سے نیچے اتر گئی ہے
مگر میں پھر بھی تِری گلی میں ٹہل رہا ہوں
تِری جفاؤں کی آگ ایسی لگی ہوئی ہے
میں موم کی طرح نیچے نیچے پگھل رہا ہوں
مجھے بھلانے کو میرے خط وہ جلا رہا ہے
میں جس کے مژگاں پہ اشک بن کر مچل رہا ہوں
پھر اس کی یادوں نے کل اے اطہر بکھیر ڈالا
مجھے لگا تھا میں دھیرے دھیرے سنبھل رہا ہوں
اطہر کلیم
No comments:
Post a Comment