Monday 24 October 2022

رہتے تھے کسی دل میں مگر یاد نہیں ہے

 رہتے تھے کسی دل میں مگر یاد نہیں ہے

اب جائیں کہاں؟ اپنا ہی گھر یاد نہیں ہے

کچھ لوگ جو جیتے ہیں تو اورں کے لیے بھی

کچھ لوگوں کو جینے کا ہنر یاد نہیں ہے

کس وقت اُٹھی اور ہوئی پار جگر کے

اس شوخ کی ترچھی سی نظر یاد نہیں ہے

کچھ لوگ جو شامل تھے مِرے ساتھ سفر میں

کس موڑ پہ اترے وہ کدھر یاد نہیں ہے

اک دُھن ہے جو کھیچے لیے جاتی ہے ضیا کو

جس در پہ ٹھہرنا ہے وہ در یاد نہیں ہے


ضیا شادانی

No comments:

Post a Comment