Monday, 24 October 2022

تری نظر میں ترے دل میں گھر کیا جائے

 تِری نظر میں تِرے دل میں گھر کیا جائے

اب اس خیال ہی کو درگزر کیا جائے

علاوہ عشق کے ہے ہی نہیں زمانے میں

کوئی بھی کام، جسے عمر بھر کیا جائے 

نگاہِ غیر سے بھی دیکھنا کبھی خود کو 

یہ کام سخت بہت ہے، مگر کیا جائے 

جو وجہ شعر تھی وہ نظم ہو چکی کب کی 

مِرے خیال! تجھے کس کے سر کیا جائے 

وہ مرمریں سا بدن، نظم ہو چکا کب کا

مِرے خیال! تجھے کس کے سر کیا جائے 

خبر میں کوئی بھی رکھتا نہیں ہوں اب اس کی 

اب اس خبر سے اسے باخبر کیا جائے 

ابھی نہ چاک سے مجھ کو اتار کوزہ گر

اگر میں خوب ہوں تو خوب تر کیا جائے


تہذیب ابرار

No comments:

Post a Comment