Monday, 24 October 2022

ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا

 ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی درد کا دامان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر

ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹائیں دل میں

ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہوتا ہے مگر

ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی زہر پیے، غم کو سہے کچھ نہ کہے

ہر کوئی درد کو زندان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی بکھرے سنور جائے، سنور کر بکھرے

ہر کوئی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی صاحبِ ایمان ملے گا، لیکن

ہر کوئی عاشقِ ایمان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی باپ کے قاتل کو معافی دے دے

ہر کوئی اتنا بھی بلوان نہیں ہو سکتا

ہر کوئی لفظ کی حرمت کی نہ قیمت مانگے

ہر کوئی مفت ثنا خوان نہیں ہو سکتا


مسعود حساس

No comments:

Post a Comment