ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی درد کا دامان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹائیں دل میں
ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی زہر پیے، غم کو سہے کچھ نہ کہے
ہر کوئی درد کو زندان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی بکھرے سنور جائے، سنور کر بکھرے
ہر کوئی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی صاحبِ ایمان ملے گا، لیکن
ہر کوئی عاشقِ ایمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی باپ کے قاتل کو معافی دے دے
ہر کوئی اتنا بھی بلوان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی لفظ کی حرمت کی نہ قیمت مانگے
ہر کوئی مفت ثنا خوان نہیں ہو سکتا
مسعود حساس
No comments:
Post a Comment