زندہ بھی خاک ہم رہے گم صم سے بے نیاز
ممکن نہ تھا کہ جی سکیں ہم تم سے بے نیاز
صد حیف ہم سے بھی نہ ہوئے آج تک بیاں
جذبات آپ کے وہ ترنم سے بے نیاز
اے کاش خود ہی دیکھ لو بین السّطور اب
سر بستہ رازِ عشق تکلم سے بے نیاز
ہم پر فلک نے دِن کو بھی کچھ وار تھے کیے
گِرتے شہاب آج بھی ہیں دم سے بے نیاز
بِن بادبان کیا ہمیں موجِ ہوا سے کام
کھیتے رہیں گے ناؤ تلاطم سے بے نیاز
دیکھی تھیں دل کے ساز پہ نازک سی انگلیاں
ہوتا نہیں جو شعر ترنم سے بے نیاز
بے کل جو آج آپ خرابات میں نہیں
گویا خود افلاطون بھی ہے خم سے بے نیاز
عبدالرزاق بے کل
No comments:
Post a Comment