Monday 24 October 2022

زندہ بھی خاک ہم رہے گم صم سے بے نیاز

 زندہ بھی خاک ہم رہے گم صم سے بے نیاز

ممکن نہ تھا کہ جی سکیں ہم تم سے بے نیاز

صد حیف ہم سے بھی نہ ہوئے آج تک بیاں

جذبات آپ کے وہ ترنم سے بے نیاز

اے کاش خود ہی دیکھ لو بین السّطور اب

سر بستہ رازِ عشق تکلم سے بے نیاز

ہم پر فلک نے دِن کو بھی کچھ وار تھے کیے

گِرتے شہاب آج بھی ہیں دم سے بے نیاز

بِن بادبان کیا ہمیں موجِ ہوا سے کام

کھیتے رہیں گے ناؤ تلاطم سے بے نیاز

دیکھی تھیں دل کے ساز پہ نازک سی انگلیاں

ہوتا نہیں جو شعر ترنم سے بے نیاز

بے کل جو آج آپ خرابات میں نہیں

گویا خود افلاطون بھی ہے خم سے بے نیاز


عبدالرزاق بے کل

No comments:

Post a Comment