پھولوں کی طرح لوگ نکھر کیوں نہیں جاتے
خوشبو کے بہانے ہی بکھر کیوں نہیں جاتے
دریا نے دھرم، پیاس کے ماروں سے نہ پوجھا
دریا جو کرے، آپ وہ کر کیوں نہیں جاتے
بس اپنے ہی حق مانگتے ہو، کیا یہ غضب ہے
لوگوں کے ادا کر کے، گزر کیوں نہیں جاتے
کڑوے بھی ہیں اور اس پہ ستم نیم چڑھے ہیں
مسند سے یہ سب لوگ اتر کیوں نہیں جاتے
کب تک کے ستم اور گوارا یہ کریں گے
مظلوم بھی اب حد سے گزر کیوں نہیں جاتے
بد خلق و بد ذوق نئی نسل کے ناداں
اخلاق کے زیور سے سنور کیوں نہیں جاتے
پرواز ہو ایسی کہ نہ ہو مد مقابل
اوروں نے کیا آپ وہ کر کیوں نہیں جاتے
جو دل سے اٹھے اشک، بھلا خشک ہوئے کیوں
آنکھوں کے جزیروں میں اتر کیوں نہیں جاتے
ارشاد میاں، کچھ تو کہو، یار! صبا سے
خوابوں سے گئے دل سے مگر کیوں نہیں جاتے
ڈاکٹر ارشاد خان
No comments:
Post a Comment