Sunday, 23 October 2022

یہ سبز باغ دکھا نہ ادھر ادھر کے مجھے

 یہ سبز باغ دکھا نہ اِدھر اُدھر کے مجھے

رٹے ہوئے ہیں پہاڑے اگر مگر کے مجھے

وہ چاہتا ہے شکایت نہ ہو مِرے لب پر

بھری بہار کی رُت میں اداس کر کے مجھے

میں اس لیے رہِ غم میں سنبھل نہیں پائی

فریب دیتا ہے ہر بار وہ نظر کے مجھے

زمین زادے تِرے ہوش میں اڑا دوں گی

ذرا دکھا تو سہی تُو بھی اب مُکر کے مجھے

میں ایک دشتِ محبت سے ہو کے آئی ہوں

یہ عارضے نہیں یوں ہی لگے جگر کے مجھے

یہ آسماں کے ستارے مجھے بلاتے ہیں

پیام آنے لگے روز اب قمر کے مجھے

میں جانتی ہوں محبت کے سب فریبوں کو

تُو کیا سکھائے گا رستے یہاں ہنر کے مجھے

شبِ فراق میں جب سوچتی ہوں میں مریم

وہ یاد آتا ہے دل میں ٹھہر ٹھہر کے مجھے


مریم ناز

No comments:

Post a Comment