جھٹلا رہا ہوں عظمتِ نام و نسب کو میں
آواز دے رہا ہوں یہ کس کے غضب کو میں
میرے بدن میں درد کا لشکر ہے، دیکھنا
گزرا تو روند ڈالوں گا شہرِ طرب کو میں
وہ چاہتوں کے خواب، وہ خوابوں کے سلسلے
اک ایک کر کے توڑتا جاتا ہوں سب کو میں
ہوتے ہیں کب یہ کون سے موسم کے رنگ میں
اتنا تو جانتا ہوں تِرے چشم و لب کو میں
رہتا ہے مجھ میں سہمی ہوئی شام کا سکوت
پہچان لوں گا خوف کی آہٹ سے شب کو میں
اظہر نقوی
No comments:
Post a Comment