ہمارے دل پہ آخری وہ تیر آج چل گیا
ہمارے ساتھ چلتے چلتے راستہ بدل گیا
چمک رہا تھا جو ہمارے دل کے آسمان پر
وہ ماہتابِ دلنشین ایک پل میں ڈھل گیا
ہر ایک شے ہے تر بتر ہر ایک شے غریق ہے
ہماری پتلیوں سے ایک دریا کیا ابل گیا
سکوت چھا گیا ہمارے کوزہ گر کی جان پر
وہ گارہ چاک پر جو ماہتاب میں بدل گیا
اماوسوں کی تیرگی میں چاندنی اتر گئی
ہمارے دل کا وار کیا ہمارے دل پہ چل گیا
تھے محوِ رقص شہر کے امیر سب کے سب یہاں
ہوا تو کچھ نہیں مگر غریب دل دہل گیا
پیا تھا ایک جام ہی کسی کے عشق کا یہاں
لباسِ روح ایک پل میں تار ہو کے جل گیا
گل نسرین
No comments:
Post a Comment