Monday 24 October 2022

ہمارے دل پہ آخری وہ تیر آج چل گیا

 ہمارے دل پہ آخری وہ تیر آج چل گیا

ہمارے ساتھ چلتے چلتے راستہ بدل گیا

چمک رہا تھا جو ہمارے دل کے آسمان پر

وہ ماہتابِ دلنشین ایک پل میں ڈھل گیا

ہر ایک شے ہے تر بتر ہر ایک شے غریق ہے

ہماری پتلیوں سے ایک دریا کیا ابل گیا

سکوت چھا گیا ہمارے کوزہ گر کی جان پر

وہ گارہ چاک پر جو ماہتاب میں بدل گیا

اماوسوں کی تیرگی میں چاندنی اتر گئی

ہمارے دل کا وار کیا ہمارے دل پہ چل گیا

تھے محوِ رقص شہر کے امیر سب کے سب یہاں

ہوا تو کچھ نہیں مگر غریب دل دہل گیا

پیا تھا ایک جام ہی کسی کے عشق کا یہاں

لباسِ روح ایک پل میں تار ہو کے جل گیا


گل نسرین

No comments:

Post a Comment