Monday, 24 October 2022

کھلتا نہیں سبب مجھے ایسے حجاب کا

 کھلتا نہیں سبب مجھے ایسے حجاب کا

پردہ اوٹھاؤ چہرے سے اپنے نقاب کا

ہے صبح شام ہاتھ میں ساغر شراب کا

مج کو مزے دکھاتا ہے عالم شباب کا

میرا سوال سن کے ہو خاموش کس لیے

میں منتظر کھڑا ہوں تمہارے جواب کا

اے مستِ ناز و حسن اب اتنی ہے آرزو

تم میرے ہاتھ سے پیو ساغر شراب کا

عارض سے بڑھ کے نور نہیں آفتاب میں

کیا روبرو ہو یار کے رخ ماہتاب کا

دیوانہ کو تِرے نہیں کونین سے غرض

جھگڑا ہی مٹ گیا ہے عذاب و ثواب کا

سب عاشقوں میں مجھ کو چُنا، واہ ری نگاہ

قائل ہوں میں تو آپ کے اس انتخاب کا

آتا ہے یاد دل کا وہ جلنا فراق میں

جب دیکھتا ہوں سیخ پہ جلنا کباب کا


رشید حیدرآبادی

No comments:

Post a Comment