کھلتا نہیں سبب مجھے ایسے حجاب کا
پردہ اوٹھاؤ چہرے سے اپنے نقاب کا
ہے صبح شام ہاتھ میں ساغر شراب کا
مج کو مزے دکھاتا ہے عالم شباب کا
میرا سوال سن کے ہو خاموش کس لیے
میں منتظر کھڑا ہوں تمہارے جواب کا
اے مستِ ناز و حسن اب اتنی ہے آرزو
تم میرے ہاتھ سے پیو ساغر شراب کا
عارض سے بڑھ کے نور نہیں آفتاب میں
کیا روبرو ہو یار کے رخ ماہتاب کا
دیوانہ کو تِرے نہیں کونین سے غرض
جھگڑا ہی مٹ گیا ہے عذاب و ثواب کا
سب عاشقوں میں مجھ کو چُنا، واہ ری نگاہ
قائل ہوں میں تو آپ کے اس انتخاب کا
آتا ہے یاد دل کا وہ جلنا فراق میں
جب دیکھتا ہوں سیخ پہ جلنا کباب کا
رشید حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment