کانٹوں پہ چل رہا ہوں محبت کی راہ میں
کس حسن کی بہار ہے میری نگاہ میں
دنیا گناہ گار ہے تیری نگاہ میں
زاہد ہے تیرا زعم بھی داخل گناہ میں
ذروں میں کیا نہیں ہے جو ہے مہر و ماہ میں
پستی نگاہ میں ہے بلندی نگاہ میں
دیوانگان عشق کو دنیا کی کیا خبر
دنیا کو چھوڑ آئے کہیں گردِ راہ میں
ہر منزل حیات سے گزرا چلا گیا
ہر مرحلے پہ آپ تھے میری نگاہ میں
کونین میں سمائے نہ عارف وہ حسن جب
کس کا ہے ظرف رکھ سکے اس کو نگاہ میں
عثمان عارف
No comments:
Post a Comment