Friday 30 September 2022

اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے

 اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے

وہ مسافر ہوں جو ہر موڑ پہ منزل مانگے

میری وسعت کی طلب نے مجھے محدود کیا

میں وہ دریا ہوں جو موجوں سے بھی ساحل مانگے

خواہش وصل کو سو رنگ کے مفہوم دئیے

بات آساں تھی مگر لفظ تو مشکل مانگے

دل کی ضد پر نہ خفا ہو میرے افلاک نشیں

دل تو پانی سے بھی عکسِ ماہِ کامل مانگے

سانس میری تھی مگر اس سے طلب کی محسن

جیسے خیرات سخی سے کوئی سائل مانگے


محسن نقوی

No comments:

Post a Comment