یہ اور بات ہے بدنامیوں کے گھر میں رہا
یہی بہت ہے کہ میں آپ کی نظر میں رہا
نہ راستوں کا پتہ تھا، نہ منزلیں معلوم
سفر تمام ہوا، اور میں سفر میں رہا
کسی کی زلف کا سایہ کہاں نصیب ہوا
تمام عمر سُلگتی سی دوپہر میں رہا
ہزاروں قافلے منزل پہ جا کے لوٹ آئے
میں سنگِ میل کی مانند رہگزر میں رہا
وہ جس نے رکھ دئیے دشمن کے سامنے ہتھیار
امیرِ فوج کی فہرستِ معتبر میں رہا
قدم قدم پہ لگی ٹھیس آبگینوں کو
خیال خاطرِ احباب سیم و زر میں رہا
ناظم جعفری
No comments:
Post a Comment