کھڑکی دریچے بام و غرفے سب کر گئے اندھیارے چاند
ہجرِ اُفق میں کالے پڑ گئے اندر اندر سارے چاند
شام تو شہرِ دل میں ہوتی رہتی ہے معمول کے ساتھ
لیکن وہ معمول کہ جس میں ملتے نہیں ہیں تارے چاند
اک سرحد پہ صرف شبِ تنہائی کا میلہ لگتا ہے
اس میلے میں ہِجرت کر کے آتے ہیں دُکھیارے چاند
میں جس کُوچے میں رہتا تھا، اُس میں ایک حویلی تھی
جس کی چھت سے عرش تکا کرتے تھے پیارے پیارے چاند
رُوپ نگر میں اک شہزادہ بھیس بدل کر آتا تھا
گیت یہی بس گاتا تھا وہ؛ آ رے آ رے آ رے چاند
ہر آہٹ سے اس کے چہرے کی صورت منسُوب رہی
آوازوں کی سمت پہ اکثر چاند سا کچھ چمکا رے چاند
شبزادوں سے جنگ میں اب تک کون بتائے گا اے کمیل
کتنے اُجالے قتل ہوئے ہیں، کتنی دولت ہارے چاند
کمیل شفیق رضوی
No comments:
Post a Comment