سینے سے کھینچ کے دل ہاتھ میں لے آئے ہیں
یعنی، مرکز کو مضافات میں لے آئے ہیں
آرزو لائے ہیں یوں مجمعِ آلام میں ہم
اک پری جیسے کہ جنّات میں لے آئے ہیں
جان خمیازہ ہے عُجلت کا یہ سُن لیں منصور
حرفِ آخر تو شروعات میں لے آئے ہیں
اک نیا رنگ بھی آہنگ کو بخشا ہم نے
اور جِدت بھی روایات میں لے آئے ہیں
وہ جو کہتا تھا میں باتوں میں نہیں آ سکتا
کیسے بہلا کے اُسے بات میں لے آئے ہیں
عصمت اللہ نیازی
No comments:
Post a Comment