وہ جسم کُھلتا گیا مجھ پہ التفات کے ساتھ
میں چُھو رہا تھا شبِ وصل احتیاط کے ساتھ
یہ اعتدال میرے جسم میں کہاں آیا
تمہیں بھی دل میں رکھا خلفشارِ ذات کے ساتھ
شمار کرنا تھا اشیائے رفتگاں کو مجھے
سو میں نے رکھی اداسی تبرّکات کے ساتھ
نکال پھینکے نہ دل خواہشات کو باہر
خزِینہ دفن کیا ہے یہ مشکلات کے ساتھ
ہزار رونقیں آنکھوں نے شہر میں دیکھیں
رہی ہے دل میں لگاوٹ مگر دیہات کے ساتھ
تمام رنگ ہیں قاسم! ہماری آنکھوں میں
ازل سے محوِ سفر ہیں جو کائنات کے ساتھ
قاسم حیات
No comments:
Post a Comment