Friday 30 September 2022

رہ گئی وہ نگاہ ناز قلب و جگر میں بیٹھ کر

 رہ گئی وہ نگاہ ناز قلب و جگر میں بیٹھ کر

دل میں لطیف سی خلش آنکھ ہے آنسوؤں سے تر

رات کی نیند اڑ گئی دن کا سکون لٹ گیا

تیری نگاہ ناز نے کر دیا دل پہ کیا اثر

سن نہ سکے اسی کو وہ کہہ نہ سکا اسی کو میں

عیش کی داستاں میں جو حال تھا غم کا مختصر

شاخ سے گل جو گر پڑا دل سے لگا کے رکھ لیا

دور خزاں بھی دیکھ لوں پھول چنے ہیں عمر بھر

کوئی اگر نہال ہے کوئی خراب حال ہے

ظرف کے ساتھ ساتھ ہے ان کی نگاہ کا اثر

رنگ چمن کو دیکھ کر عارفؔ خستہ دل یہ کیا

پھولوں پہ ہے کبھی نظر کانٹوں پہ ہے کبھی نظر


عثمان عارف

No comments:

Post a Comment