کب تک ملے گی منزل کیا جانے ہم کہاں ہیں
آگے بھی کارواں ہیں پیچھے بھی کارواں ہیں
ہم اپنی ذات ہی میں عالم کی داستاں ہیں
ہیں مشتِ خاک لیکن تقدیرِ دو جہاں ہیں
ہے ابتدائے الفت، درپیش امتحاں ہیں
دل ہم سے بدگماں ہیں ہم دل سے بدگماں ہیں
ہو محتسب کہ میکش دونوں کے رازداں ہیں
ساقی کی نرم نظریں، محفل کی ترجماں ہیں
اک شور سا بپا ہے ایک اک سے پوچھتا ہے
سمجھے تھے جن کو رہبر وہ راہزن کہاں ہیں
اے عندلیب! کھانا دھوکا نہ بجلیوں سے
جتنی بھی دور چمکیں نزدیکِ آشیاں ہیں
تھیں بجلیاں بدن میں، وہ دن شباب کے تھے
ہم آج بھی ہیں خالد! لیکن دھواں دھواں ہیں
خالد مینائی
No comments:
Post a Comment