سرخ یاقوت کاسنی لہجہ
ڈس رہا ہے یہ اجنبی لہجہ
پھر وہی کاٹ تیری باتوں میں
دل میں چُبھتا ہوا وہی لہجہ
اب کڑا ہجر کاٹنا ہو گا
کر رہا ہے یہ مخبری لہجہ
لاکھ تُو بھیس بھر لے شہزادی
چُغلی کھاتا ہے مُغلئی لہجہ
میری پہچان کے لیے ہے کافی
میرا اسلوب، شاعری، لہجہ
سُرمئی بادلوں سی آنکھوں کا
دِھیما دِھیما سا بارشی لہجہ
اس کی باتوں کا مغربی انداز
سر پہ پلُو کا مشرقی لہجہ
جینز تجھ پر بلا کی سجتی ہے
جیسے نظموں پہ یورپی لہجہ
مجھ سے کہتا رہا نہ لَوٹے گی
کالے جوڑے کا ماتمی لہجہ
میں تو اچھی ہوں آپ کیسے ہیں
سرسری بات، سرسری لہجہ
تُو ہے اک سہلِ ممتنع سی غزل
اور اس پر یہ لکھنوی لہجہ
جانے والوں کی چاپ میں مل کر
گِڑگڑاتا ہے مُلتجی لہجہ
ٹھوکریں کھا کے بھی کہاں سنبھلے
پھر وہی بات، پھر وہی لہجہ
شہاب عالم
No comments:
Post a Comment