Friday 30 September 2022

بات اک سنتے تو سو مجھ کو سناتے جاتے

 بات اک سنتے، تو سو مجھ کو سناتے جاتے

رُوٹھ جانے سے تو بہتر تھا کہ آتے جاتے

وہ سرِ شام جدا ہو گئے، غم اس کا ہے

خیر سے رات گئے نیند کے ماتے، جاتے

نہ سہی لطف، تو بیدادِ تبسم ہی سہی

اور دیوانے کو دیوانہ بناتے جاتے

وعدۂ وصل بھی اک حرفِ تسلی نکلا

میرا دل رکھنے کو ہاں کہہ گئے جاتے جاتے

خود تو آسودۂ افلاک ہیں تارے کیا کیا

چین کی نیند مجھے بھی تو سُلاتے جاتے

کر دیا قتل تو میّت بھی اٹھاتے جاتے

میری مٹی تو وہ ٹھکانے لگاتے جاتے

جان قربان کروں اس رخِ زیبا پہ نصیر

اک جھلک مجھ کو نظر آئے جو آتے جاتے


سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment