محبت میں جو دل خمیدہ رہے ہیں
وہی زندگی میں دمیدہ رہے ہیں
بہت کُھل کے برسے محبت کے بادل
بڑی دیر تک آبدیدہ رہے ہیں
وہی لوگ صحرا دکھائی دئیے کیوں
جو دشتِ جنوں میں نمیدہ رہے ہیں
فقط حُسن تم پر تمامی نہ ٹھہرا
کہیں پھول دنیا میں چیدہ رہے ہیں
ملیں منزلیں شہ سواروں کو لیکن
مگر لوگ جو پا بُریدہ رہے ہیں
طبیعت کسی سے بھی ملتی کہاں تھی
خرابے میں بھی ہم کبیدہ رہے ہیں
محبت کا کردار جن کو ملا تھا
وہی لوگ ہی برگزیدہ رہے ہیں
کبھی تو محبت مخالف رہے ہم
کبھی ہمنوا، ہم عقیدہ رہے ہیں
بڑی دیر تک اک دُوجے میں گم تھے
بڑی دیر تک نارسیدہ رہے ہیں
محبت کا ریشم سُلجھتا رہا ہے
اُلجھتے ہوئے ہم ملیدہ رہے ہیں
سخن پروری نے جیا مار ڈالا
عجب لوگ زیبِ قصیدہ رہے ہیں
جیا قریشی
No comments:
Post a Comment