Friday, 30 September 2022

اک دروازہ کھلتا ہے پریوں جیسے گاؤں میں

 اک دروازہ کُھلتا ہے پریوں جیسے گاؤں میں

راہ میں مدھ بن پڑتا ہے اونچے چیڑ کی، چھاؤں میں

وہ پگڈنڈی جس پر لیلیٰ اب تک رستہ دیکھتی ہے

اب تک سرسوں پُھول رہی ہے ان رنگین فضاؤں میں

بوڑھے برگد پر اب تک آسیب بسیرا کرتا ہے

جُھولے سُونے سُونے ہیں ساون کی مست فضاؤں

تیرے میرے دل کی کہانی دنیا میں مشہور رہی

رانجھا ہیر کے قصے سُنتے آئے رقص کتھاؤں میں

وہ بچپن جو اب تک دل میں چُھپ چُھپ کر مُسکاتا ہے

سوچتے ہیں چھوڑ آئیں اس کو دُور دراز خلاؤں میں


شائستہ مفتی

No comments:

Post a Comment