Saturday 24 September 2022

تمہاری ہنسی کی قسم

 لا لکھ رہے ہیں

 

تمہاری ہنسی کی قسم

اتنے موتی کبھی کانچ کے پانیوں

جیسے شفاف برتن میں

کم کم گرے ہوں گے

یہ کھنکھناہٹ الوہی غنا کی

امر کمپوزیشن سے کم کچھ نہیں  ہے

تمہارا گلا لفظ کو 

آسمانی صدا کے خم و پیچ

دینے کے فن میں یگانہ ہے 

یہ راز مجھ پر کئی قرن پہلے کھلا تھا 

کہ جب تم خیالوں کے پنگھٹ 

پہ اپنی طلب کی صراحی میں

سترنگی امرت اٹھا کر کمر سے لگائے

مرے خواب کی

اک بنفشی ڈگر پر چلی جا رہی تھیں

تقرب کے گیتوں کی تانیں

تمہاری غنائی صدا کی 

مدھر آبجو میں بہے جا رہی تھیں

میں لہروں سے گیتوں کے پتے اٹھاتا

تمہاری گلابی سجل ایڑیوں کی کشش میں 

زمانوں سے بے خود تھا

اور بے تعطل چلے جا رہا تھا 

تمہارے گلابی سے گالوں

پہ پڑتے بھنور کی قسم

آرزو کی ندی میں

کہیں ایسا بے تاب گرداب دیکھا نہیں

میں بہت جستجو سے کھنچا ہوں

تبسم کے ان گھیرواں دائروں کی طرف

یہ ازل کی کوئی گھومتی آنچ ہیں 

جو ابد کے سپیدہ سے گالوں پہ 

سرخی کی لو بھر رہے ہیں

ہنسی اور یہ گالوں کے مدہوش ڈمپل 

زمانوں کے اس خوش نظر آئینے میں

موافق تعلق کی بے چینیاں کھینچتے ہیں

کہیں ہست کی حد پہ اک مُؤقلم کی

جسارت سے یہ سمفنی نارسا لکھ رہے ہیں 

کسی پل کی سلوٹ پہ لا لکھ رہے ہیں


شہزاد اظہر

No comments:

Post a Comment