Saturday, 24 September 2022

عشق بھڑکی ہوئی آتش ہے تو پھر جانے دو

 عشق بھڑکی ہوئی آتش ہے تو پھر جانے دو

پھر بھی جب دونوں کی خواہش ہے تو پھر جانے دو

چاند کو عشق نہیں دھرتی سے، مجبوری ہے؟

ایک سیّارے کی گردش ہے، تو پھر جانے دو

روز ڈے پر جو مجھے گُل سے نوازا تم نے

صرف رسماً ہی اگر وِش ہے، تو پھر جانے دو

پیڑ کو کاٹ کے گھر مجھ کو بنانا تھا، مگر

جب پرندوں کی رہائش ہے، تو پھر جانے دو

درد و غم دیکھنے آیا تھا میں محفل میں، مگر

صرف زخموں کی نمائش ہے، تو پھر جانے دو

ہم کو روکو نہ فرشتو! کہ ہیں ہم ہجر زدہ

عشق والوں ہی کی بخشش ہے تو پھر جانے دو

غم نہانے کے لیے کب سے بضد ہیں آفاق

موسمِ ہجر کی بارش ہے، تو پھر جانے دو


صابر آفاق

No comments:

Post a Comment