Saturday, 24 September 2022

ہجر ہے یاس ہے وحشت کا سماں ہے میں ہوں

 ہجر ہے، یاس ہے، وحشت کا سماں ہے میں ہوں

عمر ٹہرے ہوئے موسم میں رواں ہے، میں ہوں

میرے دامن میں جو گنجینۂ گُل ہے، تُو ہے

تیرے دامن میں جو اک برگِ خزاں ہے، میں ہوں

از زمیں تا بہ فلک رات کا سنّاٹا ہے

ایسے عالم میں جو یہ شورِ فُغاں ہے، میں ہوں

دیکھ ہجراں میں خیالاتِ پریشاں کا فسُوں

جا بجا عکس تِرا رقص کُناں ہے، میں ہوں

طاقِ ہر شام پہ جلتی ہوئی اُمید ہے تُو

یہ جو بُجھتی ہوئی حسرت کا دُھواں ہے، میں ہوں

چشمِ صد ناز ہے، پیکانِ سِتم ہے، تُو ہے

اور اک زخمِ جگر، جان ستاں ہے، میں ہوں

برف جذبات کی پگھلی ہے مِری حِدت سے

اندروں تیرے جو اک شعلہ فشاں ہے، میں ہوں


محب الحق وفا

No comments:

Post a Comment