تمام عمر کٹی سیڑھیاں بنانے میں
فلک سے آنے میں، واپس فلک پہ جانے میں
ہمیشہ لکھتے ہیں مِل کر ہی پیار کے نغمے
مگر جِھجکتے ہیں اک ساتھ ان کو گانے میں
مسافروں نے تو مشکیزے کر لیے خالی
کسی شجر میں لگی آگ کو بُجھانے میں
پرانی جھیل کا قصہ سنا کے بچوں کو
لگا ہے سارا قبیلہ انہیں ڈرانے میں
دعا کے گھیرے سے باہر ابھی نہ تم نکلو
ابھی تو وقت لگے گا دِیا جلانے میں
میں زخم چاٹ رہا تھا زمین کے، لیکن
زباں پہ چھالے مِلے مجھ کو محنتانے میں
فضا میں زہر ہے کتنا، خبر نہیں اُس کو
مگن ہے وہ جو ابھی تتلیاں اڑانے میں
چِھڑی جو بات یتیموں کی سرپرستی کی
اکیلا رہ گیا عادل میں شامیانے میں
عادل حسین
No comments:
Post a Comment