Sunday, 25 September 2022

زخموں کو سبز پات سے ڈھکنا پڑا مجھے

 زخموں کو سبز پات سے ڈھکنا پڑا مجھے

تھوڑا سا پھر نمک بھی چھڑکنا پڑا مجھے

ہجرت سے پنچھیوں کی اداسی تھی پیڑ کو

سائے میں اس کے جا کے چہکنا پڑا مجھے

اندر تھی جس قدر بھی اماوس کی تیرگی

باہر سے چاند بن کے چمکنا پڑا مجھے

گِرنے لگا تھا مجھ پہ مِرا اپنا ہی وجود

اپنی جگہ سے تھوڑا سرکنا پڑا مجھے

اک عمر تیرے شہر کی گلیوں میں دربدر

اپنی ہی آرزو میں بھٹکنا پڑا مجھے

لشکر جھجک رہا تھا کہ چشمے میں زہر ہے

لیکن میں جاں بلب تھا سو چکھنا پڑا مجھے


عادل حسین

No comments:

Post a Comment