زخموں کو سبز پات سے ڈھکنا پڑا مجھے
تھوڑا سا پھر نمک بھی چھڑکنا پڑا مجھے
ہجرت سے پنچھیوں کی اداسی تھی پیڑ کو
سائے میں اس کے جا کے چہکنا پڑا مجھے
اندر تھی جس قدر بھی اماوس کی تیرگی
باہر سے چاند بن کے چمکنا پڑا مجھے
گِرنے لگا تھا مجھ پہ مِرا اپنا ہی وجود
اپنی جگہ سے تھوڑا سرکنا پڑا مجھے
اک عمر تیرے شہر کی گلیوں میں دربدر
اپنی ہی آرزو میں بھٹکنا پڑا مجھے
لشکر جھجک رہا تھا کہ چشمے میں زہر ہے
لیکن میں جاں بلب تھا سو چکھنا پڑا مجھے
عادل حسین
No comments:
Post a Comment