ہوا کے تخت پہ ہوں آسماں کا آدمی ہوں
میں خاک زاد رہِ کہکشاں کا آدمی ہوں
یہ میرے پر مجھے اونچا اڑا رہے ہیں بہت
زمین پوچھتی ہے میں کہاں کا آدمی ہوں؟
مِرے گلاب نہیں خواب جھڑنے والے ہیں
خزاں کا پیڑ نہیں، میں خزاں کا آدمی ہوں
کسی کو دشت کا چشم و چراغ لگتا ہوں
کوئی سمجھتا ہے میں گلستاں کا آدمی ہوں
کوئی ہوا کی طرف کا سمجھ رہا ہے مجھے
کسی کو لگتا ہے میں بادباں کا آدمی ہوں
اِدھر اُدھر مِرے حالات نے کیا ہے مجھے
میں اس جگہ پہ نہیں ہوں جہاں کا آدمی ہوں
یہ ریگزار مِرا مستقر نہیں شہزاد
یقین میں رہتے ہوئے میں گماں کا آدمی ہوں
شہزاد اظہر
No comments:
Post a Comment